Tuesday, May 19, 2020

شطرنچ کے محرے



    اہل کفر کی اسلام دشمنی سے کون واقف نہیں اور یہ سلسلہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کے اعلان نبوت کے وقت سے ہی شروع ہو گیا تھا اور پھر مختلف ادوار سے گزرتا ہوا موجودہ دور تک آن پہنچا ہے۔
  جیسا کہ قرآن کریم میں بھی اس کا ذکر آیا ہےکہ،  "یہود و نصارہ کبھی تمھارے خیر خواہ  یا  دوست نہیں ہو سکتے"
  ڈرامہ ارتغرل غازی میں جہاں ماضی کی حالات ، لوگوں کا رہن سہن  اور ثقافت  کو بڑے احسن طریقے سے دیکھایا گیا ہے   وہیں اہل کفر کی اسلام دشمنی  بھی اس ڈرامہ کا موضوع ہے۔
  ا ہل کفر  کی سازشوں نے جہاں اسلام کو نا  تلافی نقصان پہنچایا   وہیں دولت و حکمرانی کی حوس اور  نفسانی خواہشات کی تکمیل اور صلیبیوں کے پھینکے چند سکوں  کی خاطر اپنے  ایمان کا سودہ کرنےوالے غداروں کو بھی اس ڈرامہ میں بے نقاب کیا گیا ہے۔
دوستو،   مزے  کی بات یہ ہے کہ موجودہ   دور کی موذی  وبا کرونا  کے پھیلنے یا پھلائے جانے کا اشارہ بھی آپ کو اس ڈرامہ میں ملے گا۔ 
   پاکستان میں یہ ڈرامہ  دیکھائے جانے کے حوالے سے جہاں بیرونی  طاقتوں کی جانب سے روکا گیا  وہیں پاکستان کے اندر سے بھی شدید محالفت کی گئی، میں یہاں  پر کسی کا نام لینا مناسب نہیں سمجھتا  مگر یہ یقین سے کہ سکتا ہوں کے اس ڈرامہ کی مخالفت کرنے والوں کا کسی نہ کسی حوالے سے  اہل کفر  سے  تعلق ضرور ہے، یہ وہی محرے ہیں جن کو بیرونی  ہاتھوں سے حرکت دی جاتی ہے۔
یہ محرے ہمارے حکمرانوں میں،  ہمارے ملکی اداروں میں ، ہماری عدلیہ میں،   ہمارے سیاسی نمائندوں میں، ہماری بیوروکریسی میں،  ہماری معیشت میں، ہمارے میڈیا میں،  حتی کہ ہمارے کاروباری طبقہ میں بھی موجود ہیں  اور موقع کی مناسبت سے    یہ محرے حرکت میں آتے ہیں۔
  شازش کی تکمیل  کے بعد ان محروں کو انعام و اکرام سے نوازہ جاتا ہے ، جس میں اندرونی طور پر عہدے سے لے کر مال ودولت  اور بیرونی  نوازش  میں مستقل  ملکی شہریت اور پناہ  بھی  شامل ہے۔  اور بسا اوقات خطرے کے پیش نظر ایسے محروں کو موت کے گھاٹ بھی اتار دیا جاتا ہے۔
آخر میں میں آپ سب دوستوں سے گزراش کروں گا    ڈرامہ ارتغزل غازی کو ایک بار ضرور دیکھیں اور  خدارہ اپنے اردگرد موجود غداروں کو پہچاننے کی کوشش کریں اور ان کی سازشوں سے خبردار رہیں۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو،
پاکستان زندہ باد ،
  اسلام پائندہ باد





Wednesday, May 6, 2020

اسرائیل کی شیطانی سوچ اور پاکستان کا ردعمل

آخر کیا وجہ ہے کہ اسرائیل  پوری دنیا کو چھوڑ کر پاکستان 

سے ہی ناجائز اسرائیلی ریاست کو ایک جائز ریاست تسلیم 

کروانا چاہتا ہے..؟ اور ایسا کیوں ہے...؟ کہ پاکستان میں

 ہونے والے لسانی و فرقہ واریت سے بھرپور ہر فساد کے

 پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہوتا ہے...؟ . پاکستان اور اسرائیل

 دونوں ایسی ریاستیں ہیں جو ایک نظریے پر بنی ہیں۔پاکستان

 اسلام کے نظریے پر جبکہ اسرائیل یہودیت و صیہونیت 

کے نظریے پر وجود میں آئی ہیں مگر... یہ دونوں نظریات

 ایک دوسرے کا الٹ ہیں اور ان کا ٹکراؤ ہمیشہ ہر دور میں 

رہا ہے قیام پاکستان کے اوائل میں ہی یہ اعلان کر دیا گیا

 تھا کہ پاکستان کبھی بھی اسرائیل کی متنازعہ مملکت کو

 تسلیم نہیں کرے گا

.یہ الفاظ.. بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح

 رحمتہﷲعلیہ کے تھے.. پہلے دن سے ہی اسرائیل پاکستان

 سے خائف تھا اور پاکستان کا وجود اس کے لئے باعث تسلیم

 نہیں تھا پاکستان کے پہلے وزیراعظم سر لیاقت علی خان کو 

ایک بڑی رقم بطور امداد کا لالچ بھی دیا گیا تھا جو اُس وقت

 اربوں ڈالر مالیت کی رقم بنتی تھی.. لیکن شرط یہ رکھی گئی

 کہ ایک بار اسرائیل کو ایک جائز ریاست تسلیم کرنے کا 

اعلان کریں.. مگر لیاقت علی خان نے اسی وقت بڑی سختی

 کے ساتھ یہ بات واضح کر دی تھی. کہ پاکستان اسرائیل کو

 تسلیم کر لے.. ایسا ہونا،، کسی بھی صورت ممکن نہیں 

ہو سکتا. اور پاکستان کبھی جائز قانونی ریاست تسلیم نہیں 

کرے گا.. اب یہاں پر یہ سوال اٹھتا ہے.؟ کہ آخر،، اسرائیل

 کو ایسی کون سی آفت آن پڑی تھی کہ وہ ساری دنیا کو چھوڑ

 کر پاکستان سے ہی خود کو کیوں تسلیم کروانا چاہتا تھا اور

 آج تک یہی چاہ رہا ہے......کہ پاکستان اس کو جائز ریاست

 تسلیم کر لے... ایسا کیوں ہے..؟ یہ بہت ہی عام سوالات ہیں.

 مگر ان کے جواب بہت ہی خاص ہیں.

 محترم اور پیارے پاکستانیوں..!! پاکستان بننے کے کچھ 

عرصے بعد ہی اسرائیل کے وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریان

 نے اپنی صیہونی قوم کو مخاطب کر کے کہا تھا.. کہ تمہیں.

. عرب قوم اور عرب ممالک سے کبھی کوئی خطرہ نہیں ہوگا،

 اگر کسی قوم یا ملک سے اسرائیل کو خطرہ ہے تو وہ

 پاکستان ہے، اگر اسرائیل کو گریٹر اسرائیل بنانا ہے تو تمہیں

 پاکستان کے وجود کو ہر حال میں مٹانا ہی ہوگا.

 بن گوریان کی یہ نصیحت صیہونی یہودیوں نے نسل در نسل

 پروان چڑھائی ہے اور آج بھی اسی پر کاربند ہیں اور

 پاکستان کو مٹانے کے لئے نت نئے حربے تلاش کر رہے ہیں.

 سوچنے کی بات یہ ہے کہ. جب آخر اُس وقت ایک غریب

 پریشانیوں اور مسائل سے دوچار لُٹے پھٹے اِس ملک 

پاکستان سے اسرائیل کو کیا خطرہ ہو سکتا تھا.

جبکہ اس وقت ہمارے پاس اُن کے جیسے جدید ہتھیار 

اور تربیت یافتہ افواج بھی نہیں تھیں اور نہ ہی ایٹم بم 

کا تصور تھا. مگر عرب ممالک اُس وقت بھی تیل کی

 دولت سے مالامال تھے اور اسرائیل کو ٹکر دینے کی 

پوزیشن میں بھی تھے لیکن یہودیوں کی کمال ذہانت 

اور چالاکی سے عربوں کی حکمرانی میں عیاشی اور

 فحاشی کا ایسا زہر گھولا گیا کہ وہ اسرائیل کے خلاف

 بولنا بھی گناہ سمجھنے لگے عرب ممالک کو یہودیوں 

کی بین الاقوامی سرمایہ دار کمپنیوں کے ذریعے دولت 

کی ریل پیل میں ایسا مست کر دیا کہ اب اُن کو،، اِن سب

 چیزوں سے دوری موت سے کم نہیں لگتی..... پاکستان کو

 ہر طرح کا لالچ دے کر آزمانے کے بعد آخرکار 1965 میں

 ہندستان کے ذریعے پاکستان پر رات کے اندھیرے میں خوں

 ریز حملہ کر کے باقاعدہ جنگ کا آغاز کر دیا گیا اور ہندوستان

 کی ہر طرح سے مدد کی... مگر ﷲ تعالیٰ نے ارضِ پاک کی 

پاک افواج کو غیبی طاقت کے ذریعے نصرت عطا فرمائی

 اور الحمد للہ انہوں نے دشمن کو مار بھگایا.. ہمارے ملک 

کے غدار سیاستدان،، یقیناً بہت عرصہ پہلے ہی اسرائیلی 

مال و دولت کیلئے دین و ملت کو فروخت کر چکے ہوتے 

لیکن پاکستانی عوام کی طرف سے آنیوالا شدید ردعمل،

 اور پاک افواجِ پاکستان کی طرف سے سخت مخالفت 

کا ڈر،،، ہمیشہ ان غدار سیاستدانوں کو ایسا کرنے سے

 روکتا رہا. جبکہ ان غداروں کے ارضِ پاک کو اسرائیل

 اور اس کے دجالی اداروں کا محتاج بنانے میں کوئی کسر

 باقی نہیں چھوڑی یہ بھی اسرائیلی سازش ہی تھی کہ 1971

 میں پاکستان دو لخت ہوگیا، اور مشرقی پاکستان کو

 بنگلہ دیش بنا دیا گیا آئی ایم ایف جیسے دجالی اداروں نے

 اپنے خزانوں کے منہ کھول دئے تا کہ ہمارے غدار سیاستدان

 و حکمران کھل کر پاکستان کے خلاف مال اکٹھا کر سکیں اور

 آخر میں پاکستان کو کمزور اور لاغر بنا کر پاکستانی عوام 

کو اپنا محتاج کر لیا جائے... ہم لوگ یقیناً،، 

ہمارے نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی

 احادیث مبارکہ کو اس قدر غور سے نہیں پڑھ سکے،

 جتنا غور سے یہودیوں نے پڑھا اور سمجھا،، 

یوورلڈآرڈر، ایک اصطلاح استعمال کی جاتی ہے

، ہم لوگ اکثر اس پر بحث بھی کرتے ہیں، لیکن اس

 کا اصل مطلب کم لوگ ہی جان پاتے ہیں دراصل

نیوورلڈآرڈر ہی اصل وجہ ہے کہ یہودی پاکستان کے 

پیچھے 70 سال سے لگے ہوئے ہیں، کہ کچھ بھی لے لو

، لیکن اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کر لو، نیوورلڈآرڈر

ایک ایسا نظریہ ہے. جو کہ ایک مذہب ہے،، جس میں

 حاکمیت صرف دجال کی ہے اور یہودی جو چاہیں وہ ہی ہوگا

 #نیوورلڈآرڈر __کے تحت دنیا کے ہر ملک کو دجال کے 

تابع ہونا ہوگا، اور ہر ملک کو اپنے آئین اور مذہب سے

 دستبردار ہونا ہوگا، ساری دنیا کا ایک ہی مذہب پر اتفاق

 ہوگا اور بدلے میں آپ دجالی خزانوں کے مالک ہونگے،

، لیکن،، کرنا وہ کچھ ہوگا جو دجال اور اس کے چَیلوں 

کی مرضی ہوگی. اب سوال یہ ہے؟؟؟ کہ پاکستان کیلئے

 اسرائیل کو تسلیم کرنا کیوں ناممکن ہے.؟؟؟ 

جواب ذرا توجہ سے پڑھئے گا..!!!! اسرائیل کی ریاست

وہ ریاست ہے،، جس سے احادیث مبارکہ کے مطابق 

مسلمانوں کی آخری جنگ ہوگی،، اس جنگ کے لئے

 وہ مجاہدین اور فوجیں جائیں گی..... جو مشرق میں ہندستان

 کو فتح کر چکی ہوں گی،، یہاں سے یہ فوجیں 

حضرت عیسٰی علیہ السلام کی مدد کے لئے روانہ ہونگی

 حدیثِ نبوی کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ ان کے پاس 

بہترین ہتھیار ہونگے اور ان کے شہسواروں کی تعریف

 بھی فرمائی گئی ہے مشرق میں بہترین ہتھیاروں اور

 بہترین افواج والا مسلمان ملک کونسا ہے.؟ یہ بتانے 

کی ضرورت نہیں ہے ہمارے ناقص علم کے مطابق

 حضور اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا اشارہء شہسوار

، پائیلٹس اور جہازوں کی طرف،، یا پھر مسلمانوں کے 

زیرِاستعمال، ٹینکوں،، میزائلوں،،یا پھر گاڑیوں کے

 متعلق ہو سکتا ہے (وﷲ اعلم) آپ صلی ﷲ علیہ 

وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ھِند سے ٹھنڈی ہوا 

آتی ہے بقولِ اقبال. مِیرِ عَرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں

 سے میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے. ھِند میں

 کونسا ملک اسلام کے نام پر اور ﷲ تعالیٰ کے 

نبی حضرت محمد صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی دعا

 سے وجود میں آیا،، اور کن کن عظیم ہستیوں نے اس 

ملک کے قیام میں کردار ادا کیا یہ بھی بتانے کی 

ضرورت نہیں ہے.. ایک بار فرض کر لیں.. کہ پاکستان

... اسرائیل کو بطورِ ریاست تسلیم کرلیتا ہے.. تو پھر

 جھگڑا کس بات کا ہے... کیا ہمارے مقتدر حلقوں میں

 بیٹھے لوگ یہ نہیں جانتے کہ پاکستان میں ہونیوالے 

ہر فساد کے پیچھے کون ہے.؟.. پھر ہمیں اتنی جنگیں

 کرنے اور امریکہ کو 18 سال سے افغانستان میں 

برداشت کرنے کی کیا ضرورت تھی.؟ ہمیں ایٹم بم

 بنانے کی کیا ضرورت تھی.؟ کیا ضرورت تھی ہمیں

 مقدس مقامات کی حفاظت کی قسم لینے کی.؟ 

کیا ضرورت تھی اتنی فوج کی.؟ . یہ ساری دنیا

 تِتر بِتر ہو جائے گی اگر آج اسرائیل کو تسلیم کرنے

 اعلان کر دیا جائے،، اور پاکستان کے خلاف ہونے 

والی کسی سازش کا نام و نشان نہیں رہے گا،، دنیا 

کی ہر نعمت پاکستان کے قدموں میں ہوگی،،، کیونکہ

 آپ دینِ اسلام سے دستبردار ہوچکے ہونگے،، اور

 دجال کا راستہ صاف ہو جائے گا.... اگر پاکستان 

اسرائیل کو تسلیم کرلیتا ہے تو یہودی

 #نیوورلڈآرڈر __میں کامیاب ہو جائیں گے.

. . صرف پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے.. جو ان

 اسرائیلی یہودیوں کی کارستانیوں کو تسلیم نہیں کرتا.

.. 2030 تک اسرائیل کو ہر حال میں #نیوورلڈآرڈر 

کو لاگو 

کرنا ہے اس دوران آپ کو____سب سے زیادہ

 پاک فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف کیا جائے گا

 کیونکہ #نیوورلڈآرڈر اور دجال کے راستے میں

 یہ ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے... یہ ہی وہ ملک

 پاکستان... جو اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ میں 

قرارداد پیش کرتا ہے اور اسرائیل کو آنکھ دکھاتا ہے

 اس لئے،، چند غداروں کے سوا اس ارضِ پاک

 پاکستان سے مایوس نہ ہونا،،،، کیونکہ.... یہودی.

 عوام.. حکومت ،،اور پاک افواج میں اختلاف کے

 منتظر ہیں . اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کا کتنا

 ظرف ہے،، اﷲ تعالی. پاکستان اور افواجِ پاکستان کی 

حفاظت فرمائے اور دشمن کی گندی نظروں سے

محفوظ رکھے..

آمین ثم آمین

 

 

Sunday, May 3, 2020

کھجور جادو اور زہر کے اثر سے بچا سکتی ہے ، جانئے تفصیلات ۔۔۔











جادو اور زہر سے بچانے کا حل۔۔۔کھجور

ماہ رمضان میں جسے افطار پر لازم و ملزوم قرار دیا جاتا ہے

 وہ کھجور ہے۔۔۔لیکن سچ تو یہ ہے کہ اسے زندگی کا حصہ

 ہمیشہ کے لئے بنانا چاہئے۔۔۔

رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

’’جو شخص صبح کے وقت سات کھجوریں عجوہ کھالے اس

 کو اس دن جادو اور زہر نقصان نہیں پہنچا سکتے

‘‘ ( صحیح بخاری ، ح: ۵۷۷۹)

کھجور کے بارے میں تو ہمارے پیارے نبی 

 کا ارشاد ہے کہ یہ پھل جنت سے ہے اور اس میں

 زہر سے شفا ہے۔۔۔

کھجور کو خوشی کا پھل بھی کہا جاتا ہے۔۔۔یہی وجہ 

ہے کہ قدیم زمانے سے ہی اسے بطور میٹھے کے

 طور پر استعمال کرنے کا رواج عام تھا۔۔۔

کھجور کھانے سے دل کے کئی امراض سے شفا 

ملتی ہے اور امراض دور ہوجاتے ہیں۔۔۔چند کھجوروں

 کو رات بھر پانی میں بھگو کر صبح نہار منہ ہفتے میں

 دو بار کھائیں اور اس سے دل کو ایسا سکون ملے گا جو

 آپ کو بیماری سے نجات بھی دلائے گا۔

 یہ قبض کشا ہے۔۔۔جن لوگوں کی انتڑیاں کام نہیں کرتیں 

ان کو کھجور کھلانا بہت فائدہ مند ہے۔۔۔یہ قبض کو نا صرف

 ختم کرتی ہے بلکہ آنتوں کو بھی متحرک کرتی ہے۔۔۔

وہ لوگ جو اپنا وزن بڑھانا چاہتے ہیں ان کے لئے یہ ایک

 بہترین ذریعہ ہے۔۔۔اگر دودھ میں ملا کر اس کا شیک پیئں

 تو کچھ ہی دنوں میں وزن میں اضافہ ہونا شروع ہوجائے گا۔۔۔

کھجور کے درخت سے ایک گوند نکلتی ہے جو آنتوں، گردوں

 اور پیشاب کی نالیوں کی سوزش کو دور کرنے کے لئے

 بہترین ہے۔۔۔

اگر آپ مستقل کھجور کھاتے ہیں تو منہ کی بدبو 

سے نجات مل جائے گی۔۔۔

لوگوں کو لگتا ہے کہ اس کی تاثیر گرم ہے لیکن اس کا

 حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔اس کی تاثیر ٹھنڈی ہے لیکن

 اس کو کھانے کے لئے کچھ باتوں کا خیال بھی رکھنا 

ضروری ہے۔۔۔جن لوگوں کو نظام ہاضمہ میں تکلیف

 ہے وہ اس کی مقدار کو بہت زیادہ نہ لیں۔۔۔

رمضان میں سحری میں اگر آپ دو کھجوریں اور دودھ 

کا گلاس پئیں گے تو یہ ایک طاقتور سحری ہوگی۔

 

Friday, May 1, 2020

کیا آپ ممی کی تاریخ سے واقف ہیں ؟ جانئیے تفصیلات


جب کوئی شخص مرجاتا ہے تو اس کا جسم ٹوٹ جاتاہے۔ جلد اور گوشت غائب  ہوجاتے ہیں اور وقت

کے ساتھ ساتھ صرف ایک کنکال رہ جاتا ہے۔ ممی کسی فرد یاجانور کا مردہ جسم ہے جسے کپڑا یااس کے گرد کوئی دوسرا

 سامان لپیٹا کرمحفوظ کیا گیا ہو۔ پوری دنیا میں ممی پائے جاتے ہیں ، ان میں سے بیشتر مصر میں ہیں۔ تاہم ، جنوبی

امریکہ اور ایشیاء کی دیگر ثقافتوں نے بھی ان کے مردہ افراد کوماتم کیا۔

اب تک کا سب سے قدیم ممی مسیح سے 6000 سال پہلے کا ہے۔ لندن میں برٹش  میوزیم فی الحال 3400 قبل مسیح کا قدیم

 مصری ممی دکھاتا ہے۔ برطانوی ماہر آثار قدیمہ ہاورڈ کارٹر نے 1922 میں توتنخمون  کی باقیات دریافت کیں ، شایدیہ 

دنیا کی سب سے مشہور ممی ہو۔

آج سائنس دان خصوصی آلات اور ایکسرے مشینوںکے ساتھ ممیوں کا مطالعہ کرتے  ہیں۔انہوں نے قدیم لوگوں کی 

لاشوں اور ان کی زندگی کے بارے میں مزیددریافت کیا۔ جس سے انہیں یہ بھی  اشارےملے ہیں کہ انھوں نے کیا کھایا 

  اور انہیں کس طرح کی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

شدید موسم کی وجہ سے ممیشن بھی ہوتی ہے۔ الپس اور ہمالیہ کے پہاڑوں سمیت  دنیا کے سرد علاقوں میں ممی ملے ہیں۔

 نمک کا پانی جسموں کے تحفظ میں بھی مدد کرتا ہے۔ ممی صحراؤں میں اور بیٹ  کے جھنڈوں میں پائی گئی ہیں۔ سب سے 

مشہور قدرتی ماں اٹزی ہے ، آئس مین ، جو 1991میں آسٹریا - اطالوی سرحد پر ایک گلیشیر میں ملی ہے۔

مصری ممیاں

مصری معاشرے نے کئی صدیوں سے ان کے مرنےوالوں کا ماتم کیا ہے ۔ ان کا ماننا  تھا کہ مرنے کے بعد انہیں

جسم کو زندگی کے لئےمحفوظ رکھنا ہے۔ مردہ کی روح اپنی زندگی کے بعد زندگی میں مل جائےگی۔ پہلے  ، انہوں نے

 لوگوں کو گرم ریت میں مردہ لوگوں کے ساتھ دفن کرنا شروع کیا۔ بعدمیں ، انہوں نے خصوصی مقبرے بنائے۔ 

مصری چاہتے تھے کہ ان کے لواحقین مرنےکے بعد راحت محسوس کریں۔

بعد ازاں لاشوں کو کپڑوں میں لپیٹا گیا تاکہبیکٹیریا اور دیگر نقصان دہ مادے کو ان  کے پاس جانے سے روکیں۔

امبروں نے لاشوں سے پانی اور تمام مائعات کو اندر سےنکال دیا۔ لاشوں کو ڈھانپنے کے لئے نٹرون نامی ایک مادہ

 استعمال کیا  جاتا تھا جس سے  جلد اور گوشت سے نمی نکالی جاتی، اندرونی اعضاء، بشمول  دماغ ، کو الگ کر دی جاتا تھا۔

 دل عام طور پرجسم میں رہ جاتا تھا۔  ماں کو اکثر چہرے کاماسک ملتا تھا۔ اس کے بعد ممیوں کو لکڑی یا

پتھر سے بنے تابوتوں میں ڈال دیا جاتا تھا۔ لواحقین  انہیں سجاتے اور زمین کے نیچے دفن کردیتے،  نکالے گئے اندرونی

 اعضاءکو برتنوں میں ڈال کر ممیوں کے ساتھ رکھ دیا جاتا تھا۔

 بعض اوقات جانوروں کو بھی  ان کے مالکان کے پاسرکھ دیا جاتا تھا۔

غریب لوگوں کے پاس اس طرح کے پیچیدہ طریقہ کار کے لئے رقم نہیں ہوتی تھی۔ دوسری طرف ممنگائی فرون اور

بزرگ اشخاص کام کا معاوضہ طلب کرتے تھے۔ قدیم مصر میں ممیوں کے اس عمل  کومکمل کرنے میں 70 دن لگتے تھے۔

 

Sunday, February 23, 2020

شاہراہ ریشم ایک تاریخ ایک داستان۔۔۔ جانئیے تفصیلات







شاہراہ ریشم  تجارتی راستوں کو دیا جانے والا نام ہے جو یورپ اور

 بحیرہ روم کو ایشین دنیاسے جوڑتا ہے۔

یہ روٹ 6،500کلومیٹر لمبا ہے اور اس کا نام اس

لئے پڑ گیا ہے

کیونکہ ابتدائی چینیوں نے اس کے ساتھ

 ریشم

کا کاروبار کیا تھا۔ اگرچہ ریشم ہی تجارت کی سب سے اہم

 چیز نہ

تھی  بلکہ یہاں اور بھی بہت ساری تجارتی

 اشیاء 

بھی  موجود تھیں جو مشرقی ایشیااور یورپ کے درمیان سلک

 روڈ کے

ذر یعے  تجارت ہوتی تھیں۔ وقت کے

 ساتھ

ساتھ ، طب ،خوشبو ، مصالحے اورمویشیوں  کے کاروبار نے

 براعظموں کے مابین اپنا راستہ بنا لیا۔

چینی ہزاروں سال پہلے صرف ریشم بنانا جانتے

تھےاور پھر ایک طویل

عرصے تک 

وہ صرف  یہی کام کرتے رہے 

 جو

وہ  جانتے تھے کہ اس قیمتی سامان کو کیسے بنانا ہے۔  تب صرف

شہنشاہ 

اور  اس کے کنبے  کے اعلی ترین مشیروں

کو ریشم 

سے بنا ہوا لباس پہننے کی اجازت تھی۔ ایک طویل عرصے

تک چینیوں نے اس راز کو بہت محتاط انداز میں

سنبھالے رکھا۔قدیم رومی  وہ پہلے یورپین تھے جو اس حیرت انگیز

مادے سے واقف ہوئے۔ تجارت کا آغاز ، اکثر

ہندوستانی

کے ساتھ بطور مڈل مین ہوتا تھا ، جو رومیوں سے

سونے چاندی کے

 بدلے

ریشم کا سودا چینیوں کے ساتھ کرتے تھے۔

راستے میں سفر کرنا خطرناک  ہوتا تھا چنانچہ گرم صحرا ، اونچے

 پہاڑوں

اور ریت کے طوفانوں نے سفر کو دشوار بنا  دیا تھا ۔

 شاہراہ

ریشم کے ساتھ بیشتر سامان قافلے لے کر جاتے تھے۔

 تجارت

کرنے والے افراد  بعض اوقات شاہراہ ریشم پر

صدیوں سے لوگ قدیم راستے پر آباد ہوئے اور بہت

سے

نئے شہر ابھرے۔ بعدازاں اس پر قابو پانے کے

لئے  مشکلات

سامان 

ایک جگہ  سے دوسری جگہ لاتے تھے ، جہاں سے سامان

 کسی

اور  ذریعہ ترسیل سے آگے  پہنچایا جاتا تھا۔

پیش آئیں ، لیکن کسی بھی طرح یہ آسان کام نہیں

تھا۔

مذہب ، زبانیں اور بیماریاں بھی ریشم روڈ پر

پھیلتی  رہیں۔

بدھ مت 

کا مذہب   جو ہندوستان میں شروع ہوا تھا ، اسی راستے

میں چین میں پھیل گیا۔ یورپی تاجر  طاعون کی بیماری کو قدیم

سڑک کے ساتھ ایشیاء سے  یورپ لے آئے تھے۔

ابتدائی قرون وسطی میں ، رومی سلطنت کے زوال کے

سبب

 راستے

میں ٹریفک میں کمی واقع ہوئی۔ منگولوں نے وسطی

ایشیاء پر کنٹرول کیا تو 13 ویں اور 14 ویں صدی

کے درمیان ،

 شاہراہ

ریشم کے راستے تجارت ایک بار پھر مضبوط تر

ہوگئی۔ ریسرچ ایج کے دوران ریشم روڈ اپنی اہمیت

کھو بیٹھا

کیونکہ ایشیاء کے لئے سمندری راستے دریافت

ہوگئے تھے۔